*کٹاس راج ٹمپل*
اگر آپ سیاح ہیں یا گھومنے پھرنے کے شوقین تو جب بھی کلرکہار جایئں تو کٹاس راج ٹمپل لازمی دیکھیں ویسے تو صوبہ پنجاب کو اللہ تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے سونااگلتی،زمینیں لہلاتے کھیت و نگار رنگ موسم قدرت کا عطیہ ہیں موسم سرما رخصت ہوتا ہے تو موسم بہار کی رونقیں ہر سو پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
جاڑے کے اختتام پر پیڑ پودے پھر سے سبزے کی چادر اوڑھتے ہیں ہر سو سرسوں کے لہراتے کھیت نئی زندگی کی آمد کا پتہ دیتے ہیں مگر آج بات ہوگی کچھ خاص یقینن آپ لوگ نے نام کٹاس راج ٹمپل کا نام پہلی بار سنا ہوگا۔۔
پاکستان کے ضلع چکوال میں کلر کہار سے 25 میل دور واقع کٹاس راج پاکستان میں موجود ہندو مذہب کے اہم ترین مندروں میں سے ایک ہے۔ اس مندر کی تاریخ بڑی دلچسب ہے یہ مندر ہندو مت کے متعدد فرقوں کا مرکز بنا رہا۔ شیو مت کے ماننے والے ناتھ پنتھیوں نے اس کو اپنا مرکز بنایا اور کئی اہم ناتھ سادھوں اور یوگیوں نے یہاں جیون تیاگ دیا۔ شیو مت کے دوسرے فرقوں میں بھی یہ اہم تیرتھ رہا۔ پھر یہ تیرتھ ویشنو مت کا مرکز بھی رہا۔ ویشنو مت کی اہم کتاب مہابھارت میں اس جگہ کا تذکرہ موجود ہے۔ کرشن اور پانڈو بھائیوں کے بنائے ہوئے ست گرہ مندر اسی دور کی یادگار ہیں۔ کنشک نے یہاں بدھ مت کا اسٹوپا بنایا اور گرو نانک بھی یہاں آئے جن کی یاد میں ایک عمارت یہاں برسوں قائم رہی۔ اس طرح کٹاس راج بدھ مت اور سکھ مت میں بھی مقدس ٹھہرا۔ کٹاس راج کا تذکرہ ان تاریخی اور مذہبی کتب کتابوں میں موجود ہے۔
بہت سے تاریخی، نیم تاریخی اور دیو مالائی قصے اس تیرتھ سے منسوب ہیں۔ ایسا بھی مانا جاتا ہے کہ رام، سیتا اور لکشمن نے اس تیرتھ میں اپنے بن باس کا کچھ وقت کاٹا۔ پاکستانی حکومت کی طرف بحالی کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہ ٹمپل کمپلکس زوال کا شکار ہے۔ جس کی بڑی وجوہات یہ ہیں۔
1- کٹاس کا مرکز اس میں واقع مقدس جھیل ہے۔ جو صنعتی وجوہات سے بری طرح تباہی کا شکار ہے۔
2- اس مندر کو 1948 میں ہونے والی بارشوں سے شدید نقصان پہنچا۔
3- پاکستان میں ایسے ماہرین کی شدید کمی ہے جو آرکیالوجیکل اہمیت رکھنے والی سائٹ اور اس کے تہذیبی ورثہ کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری مہارت رکھتے ہوں۔
4- کٹاس کے گرد جنگلہ لگانا اور اس کی دیواروں کو روغن کر دینے کا قدم حکومت نے اگرچہ کٹاس کی بحالی کے لئے لیا مگر اس سے کٹاس راج کی خوبصورتی متاثر ہوئی۔ قدیم جگہوں کی بحالی انتہائی مہارت کا کام ہے۔ جس میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
سیاحت ایسی جگہ پر اس وقت فروغ پاتی ہے۔ جب اس جگہ کی تاریخی اور ثقافتی حثیت سیاحوں کو بتائی جائے۔ کٹاس کے متعلق ایک حقیقت یہ ہے کہ اس کی زیادہ تر تاریخ گم ہو چکی ہے۔ کئی دہائیوں تک ویران رہنے والی اس جگہ کے متعلق زیادہ تر تاریخ اب گم ہو چکی۔ ریسرچرز بھی اس بات کو نہیں جانتے کہ کٹاس راج کا تاریخی ارتقاء کیسے ہوا؟ اس جگہ کا تذکرہ ہندومت کی مقدس کتابوں میں کہاں اور کن ناموں سے ہے؟ اس جگہ کی سکھ مت، جین مت اور بدھ مت میں کیا اہمیت ہے؟
جو گائیڈز یہاں رکھے گئے ہیں۔ ان کی معلومات بھی ان حوالوں سے بہت کم ہیں۔ سب کی زیادہ تر معلومات ڈسٹرکٹ گزٹ جہلم سے ہی ماخوذ ہیں۔