🌹 _*یومِ آزادی پاکستان*_ 🌹
یومِ آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے
یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا
آج کی نسل پاکستان سے محبّت تو ضرور کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خون اور گھٹّی میں شامل ہے لیکن محبّت کا وہ جنون اور عشق جو دیوانگی کی حد تک ہمیں اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا آج مفقود ہے
اس ریاست کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آباء و اجداد نے بہت قربانیاں دیں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہمیں تو یہ مُلک وراثت میں مل گیا بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ مفت میں مل گیا کیونکہ ہمیں کوئی قربانی نہیں دینا پڑی اور اسی لٸے آج کی نوجوان نسل کو اپنے وطنِ عزیز کی قدر نہیں ہے۔ یاد رہے پاکستان وہ وطنِ عزیز ہے جو اس کے بنانے والوں کو خیرات میں نہیں ملا بلکہ پاکستان کی بنیادیں کھڑی کرنے کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ گوشت گارے کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے پاکستان کی آزادی اور اس کو بنانے والوں نے اتنی گراں قدر اور بیش قیمت قربانیاں دی ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا آزادی کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں اپنا تن، من، دھن، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان سب کچھ قربان کیا ہو ۔ پاکستان کی آزادی کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بہن، بھائی، والدین، خاندان اور بچے قتل کر دئیے گئے کتنے ہی باپ، بھاٸی، بیٹوں اور شوہروں کے سامنے ان کی گھر کی عزّتوں کو لُوٹا گیا اور پامال کیا گیا کتنی پاکدامن ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے نہروں اور کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر جانیں قُربان کیں اور پاکستان کی خاطر بھاری قیمت ادا کی۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے جو ساری زندگی اپنے والدین کی شفقت کے لئے ترستے رہے
لیکن آج جب میں نوجوان نسل کو دیکھتا ہوں تو واللّٰہ دِل خون کے آنسو روتا ہے
جن عزتوں کو بچانے کے لیے ہماری ماؤں اور بہنوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں اُنہی عزتوں کو ہماری آج کی بہن بیٹیاں سرعام نیلام کرتی پھر رہی ہیں
آزادی کے نام پر نیم برہنہ حالت میں سڑکوں پر نکلنا، شور و غل کرنا، نامحرموں کے سامنے ناچنا گانا معمول بن چکا ہے۔ انھیں کون بتائے کہ اس پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد اپنی عزتیں لٹا کر اپنی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ کرنا تھا۔
دوسری طرف ہمارے نوجوان لڑکے اور مرد بھی کسی سے کم نہیں۔ تیرہ اگست کی رات بارہ بجتے ہی غل غپاڑہ کرنے ہاتھوں میں بڑے بڑے باجے لیۓ اور موٹرساٸیکلوں کے ساٸلنسر نکالے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور وہ ہنگامہ آراٸی کرتے ہیں جس کی کوٸی حد نہیں۔ انہیں اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ اُن کی ایسی حرکات سے کسی بیمار یا ضعیف کو کتنی اذّیت پہنچتی ہے
افسوس ہے ایسے ماں باپ پر بھی جو کہ اپنی اولاد کو ایسا کرنے سے باز نہیں رکھتے لمحہِٕ فکریہ ہے ان والدین کیلٸے جو اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں
میں آپ سب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا قاٸدِ اعظمؒ اور علّامہ اقبالؒ نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟
کیا ان سب کیلٸے ہمارے آباٶ اجداد نے قربانیاں دے کر یہ آزاد وطن حاصل کیا تھا؟
کیا ہمارا اسلام ہمیں یہ تعلیمات دیتا ہے؟
کیا ہم میں ذرّہ برابر بھی شرم و حیا باقی نہیں رہی؟
کیا ہم اتنے بےحِس اور بیغیرت ہو چکے ہیں کہ دو رکعت نمازِ نفل ادا کر کے الله کا شکر ادا کرنے کی بجاۓ فحاشی پھیلاتے پھریں؟ غل غپاڑہ مچاتے اور سڑکیں منجمد کر کے لوگوں کو پریشان کرتے پھریں؟
ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم شہداۓ وطن کی بلندیِٕ درجات کیلٸے دعاٸیں کریں، وطنِ عزیز کے مستحکم ہونے اور ترقّی کیلٸے دعاٸیں مانگیں۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کا حصول اسلام کے نفاذ کیلٸے کیا گیا تھا
تحریکِ پاکستان کے دوران ہر مرد و زن، چھوٹے اور بڑے کا ایک ہی نعرہ ہوتا تھا
*پاکستان کا مطلب کیا؟*
*لاالہ الا اللّٰہ*
لیکن صد افسوس کہ آج ہم اس نعرے کو اور اس وطن کے حصول کے مقصد کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔
ہم سب کو چاہیے کہ سب سے پہلے رَبِّ کاٸنات کا شکر ادا کریں کہ ہم ایک آزاد اسلامی ملک میں آزادی کے ساتھ عبادات کرتے ہیں اور آزاد سانس لیتے ہیں۔